انسانی فطرت ہے کہ ہم اگر کسی مشہور شخص کے حوالے سے کوئی چیز دیکھتے ہیں تو شائبہ ہے کہ ہمارے اندر جانبداری کا پہلو آ جائے. اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ ہم اس کی بے جا تعریف کریں یا غیر ضروری تنقید کا نشانہ بنائیں. ہماری رائے کے متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، اس حوالے سے اسلامی ادوار کے نگارگاروں نے کوشش کی کہ وہ اپنی بنائی تصاویر پر اپنی کوئی نشانی نہ چھوڑیں.
مسلمان مصوروں نے تصویر کی منظر کشی کا جو طریقہ اپنایا وہ روائتی طریقوں سے مختلف تھا. انہوں نے نگار گاری کے فن کو دوام بخشا، گو کہ نگار گاری کا فن مغربی یورپ اور باظنتینی مصوروں نے بھی اپنایا مگر آج جو زیادہ تعداد میں نگار گاری کے نسخے موجود ہیں وہ فارس، منگول اور عثمانیہ خلافت کے دور کے مصوروں کے ہیں شاید اسی وجہ سے نگارگاری کو اسلامی فن مصوری سے منسوب کیا جاتا ہے.
عثمانی دور کے مصور اس چیز کا اہتمام کرتے تھے کہ ان کے فن پاروں میں انفرادیت کا عنصر نہ ہو اسی چیز کے پیش نظر وہ اپنی تصاویر پر دستخط کرنے سے بھی اجتناب برتتے تھے. دستخط اور نشانی نہ چھوڑنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس دور کے بیشتر مصور حکمرانوں کے دربار سے منسلک تھے اور مصور شاہی نگارخانے میں کسی ماہر نقاش کے زیر سایہ کام کیا کرتے تھے. اکثر یہ لوگ شاہی دربار سے متعلق واقعات کو اپنی تصاویر میں پیش کیا کرتے. ان نگارخانوں کو ایک ادارے کی طرح چلایا جاتا، اس میں مختلف شعبہ جات تھے اور ہر شعبہ کا ایک سربراہ تھا. ہر شعبہ میں کام کرنے والے مصور اپنے حصے کا کام کرتے اور پھر یہ تصویر دوسرے شعبہ کو منتقل کر دی جاتی.
مثال کے طور پر آغاز میں ایک نقاش بنیادی خاکہ بناتا، پھر رنگ کا ماہر رنگ بناتا اور رنگ بھرتا، خطاطی کا ماہر ضرورت کے مطابق خطاطی کرتا، خاص نسخوں میں ماہر تذہیب خوبصورت رنگوں سے تذہیب کا عمل کرتے، بعض خاص نسخوں پر تذہیب کے لیے سونے کا استعمال کیا جاتا،
حاشیہ کی سجاوٹ کے لیے الگ سے مصور ہوتے، اور بہت سے ایسے نگارگاری کے نسخے آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں حاشیہ کی تزین و آرائش پر خاص توجہ دی گئی ہے، اس میں رنگ، خطاطی، تذہیب اور گرہ سازی کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملے گا.
حتمی مراحل میں نگارگاری کے ان نسخوں کو کتابی شکل دینے کیلئے جلد سازی کی جاتی تھی
نگارگاری کے ان فن پاروں کی تکمیل بہت سے ماہرین کی محنت کا نتیجہ تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اسلامی نگارگار ان فن پاروں پر اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتے تھے کیونکہ یہ فرد واحد کی کوشش نہیں بلکہ نگارخانہ میں موجود بہت سے مصوروں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا.
اس نظریے کو ترکی کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار اورہان پاموک نے اپنی کتاب ‘میرا نام سرخ’ میں بھی بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اپنے فن پاروں پر دستخط نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان مصوروں کے نزدیک تصویر کو خدا کے نقطہ نظر سے بنانا مقصود تھا نا کہ مصور اپنا دیکھنے کا انداز بیان کرے، اس کے پس پشت یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسلام میں جاندار اشیاء کی نقش و نگاری کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی. ان کے نزدیک تصویر بنانے کا مقصد اس میں پنہاں معانی کو لوگوں تک پہنچانا تھا اور مناظر و اشکال محض ظاہری ہیں.
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں کامیاب مصور اور کامل تصویر اس کو گردانہ جاتا تھا جس کو دیکھ کر دیکھنے والا مصور کو پہچان نہ سکے. آج جو ہمارے پاس نسخے موجود ہیں ان کے بنانے والوں کی پہچان تصویر کے موضوع اور پیش کئیے دور کو دیکھ کر لگائی جا سکتی ہے، مگر ہم وثوق سے نہیں کہ سکتے کے بنیادی خاکہ کس نے بنایا، رنگ کس نے بھرے اور تذہیب یا کاغذ کی ابرو کا کام کس نے کیا.
Miniature Art == نگارگاری