یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا انسان کی شکل بندر سے مشابہت رکھتی تھی اور پھر وہ ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہوا اپنی موجودہ حالت میں پہنچا، میں اس پر تو یقین نہیں رکھتا، مگر میری دلچسپی اس سوال میں نہیں کہ انسان کب اور کیسے اس دنیا میں آیا بلکہ اس میں ہے کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں یہ کیسے معرض وجود میں آئی. جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کائنات میں زمین کی مثال سمندر میں اک قطرے کی سی ہے، تو انسان یہ سوال پوچھتا ہے کہ آخر اتنی بڑی کائنات کی تخلیق کا مقصد کیا ہے اور اس میں انسان جو اس زمین میں بستے ہیں ان کی کیا حیثیت و مقام ہے.
کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کائنات میں ہماری زمین جیسے اور بھی سیارہ ہوں، جہاں ہمارے جیسے انسان بستے ہوں. کیا جو تصور متوازی جہاں کا جدید سائنس نے دیا ہے اس کی کوئی حقیقت ہے، کیا ممکن ہے کہ خدا نے ایسے بہت سے متوازی جہاں بنائے ہوں جن کو موجودہ آلات اور تیکنیک سے ہم نہ دیکھ پاتے ہوں.
دیکھا جائے تو انسان صرف ایک حد تک کائنات کو ابھی دیکھ پایا ہے، جس کو سائنس میں (visible universe) کہتے ہیں.
ہمیں نہیں معلوم کہ اس سے آگے کیا ہے اور کتنے جہاں ہیں.
میرے نزدیک انسان کی تخلیق کے بہت سے مقاصد میں سے ایک مقصد خدا تعالٰی کی بکھری ہوئی نعمتوں کو تلاش کرنا ہے، خدا نے جو یہ کائنات بنائی ہے اس میں ہر سو پھیلے راز کو پانے کی جستجو کرنا ہے.